۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
واقعه کربلا

حوزہ/ امام حسینؑ کی حیات بخش تحریک میں ہر عمر کے افراد شامل تھے ، شیر خوار بچے سے لے کر سن رسیدہ بوڑھوں تک عاشقان حسینؑ نے ایسی فداکاری کا مظاہرہ کیا کہ رہتی دنیا تک ہر طالب حق کے لئے اسوہ قرار پائے ، انہیں سن رسیدہ افراد میں سے ایک" انس بن حارث کاہلی"ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی

انس بن حارث کاہل اسدی
امام حسینؑ کی حیات بخش تحریک میں ہر عمر کے افراد شامل تھے ، شیر خوار بچے سے لے کر سن رسیدہ بوڑھوں تک عاشقان حسینؑ نے ایسی فداکاری کا مظاہرہ کیا کہ رہتی دنیا تک ہر طالب حق کے لئے اسوہ قرار پائے ، انہیں سن رسیدہ افراد میں سے ایک" انس بن حارث کاہلی"ہیں ۔
سلسلۂ نسب کے ساتھ انس کا نام یہ ہے : انس بن حارث ( حرث ) بن نبیہ بن کاہل بن عمرو بن صعب بن اسد بن خزیمہ اسدی کاہلی ۔(١)ابن شہر آشوب اور خوارزمی نے غلطی سے آپ کا نام مالک بن انس کاہلی لکھاہے اور اسی بناء پر علامہ مجلسیؒ نے بحار الانوار میں آپ کا نام مالک بن انس کاہلی ذکر کرنے کے بعد ابن نما حلی کے قول سے استناد کرتے ہوئے اس کی تصریح کی ہے ۔(٢)
انس کا شمار رسول خداؐکےجلیل القدر صحابی میں ہوتاہے ،یہ اصحاب صفہ میں شامل تھے ،انہوں نے رسول خداؐکی رکاب میں غزوۂ بدر و حنین میں بھی شرکت کی اور صدر اسلام میں دین مبین کی سربلندی و کامرانی کے لئے اپنی شجاعت کا مظاہرہ فرمایا۔(٣) ان کے صحابی ہونے میں ذرا بھی شبہ نہیں اس لئے کہ انہوں نے صرف آنحضرت کی زیارت نہیں کی بلکہ ان سے بہت سے حدیثیں نقل کی ہیں ، یہاں نمونے کے طور پر صرف ایک حدیث نقل کی جارہی ہے جسے علمائے شیعہ و اہل سنت سب نے نقل کیاہے کہ رسول خداؐنےفرمایا : ان ابنی ھذا الحسین یقتل بارض یقال لھا کربلا فمن شھد ذلک ینصرہ '' بے شک میرایہ فرزند حسین کربلا کی سرزمین میں شہید کیاجائے گا لہذا جو بھی اسے دیکھے اس پر لازم ہے کہ وہ اس کی مدد کرے''۔(٤)
انس بن مالک حکم رسول کی تعمیل میں وفات رسول کے بعد واقعہ کربلا سے بہت پہلے کربلا کے اطراف میں مقیم ہوگئے تاکہ فیض شہادت سے بہرہ مند ہوسکیں ، اس سلسلے میں ایک واقعہ طبقات کبریٰ میں موجود ہے کہ عریان بن ہیثم سے منقول ہے کہ میں اپنے والد کے ہمراہ صحرا میں جاتا تھا ، ہم ایسی جگہ ٹھہرتے تھے جہاں شہادت کا واقعہ پیش آنے والے تھا ، ہم جب بھی وہاں پہونچتے تو ایک مرد اسدی کو دیکھتے جو وہاں موجود رہتاتھا ، میرے والد نے ان سے پوچھا : میں آپ کو یہاں مقیم دیکھ رہاہوں ؟ انہوں نے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ حسین بن علی یہیں شہید ہوں گے ، میں یہاں ان کے ہمراہ شہید ہونے کے لئے آیا ہوں ۔ جب امام حسین کی شہادت واقع ہوگئی تو میرے والد نے مجھ سے کہا کہ چلو دیکھتے ہیں کہ وہ مرد اسدی بھی شہیدوں کے درمیان موجود ہے یا نہیں ؟ وہاں پہونچنے پر معلوم ہوا کہ وہ بھی شہیدوں کے درمیان موجود ہے ۔(٥)
امام حسینؑ کو جناب انس پر بڑا اعتماد تھا ، کربلامیں عمر سعد تک امام کا پیغام پہونچانے پر مامور تھے ، امام نے ان کو اس لئے مامور فرمایا تھا تاکہ وہ عمر سعد کے پاس جائیں اور اسے وعظ و نصیحت کریں ، شاید اس طرح وہ راہ راست پر آجائے ، جب انس عمر سعد کے پاس پہنچے تو انہوں نے سلام کے بغیر کلام کرنا شروع کردیا ، عمر سعد نے پوچھا : کیا ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے جو سلام نہیں کیا ؟ انہوں نے جواب میں فرمایا :کیا میں اس کو سلام کروں جس نے فرزند رسول حسین بن علی کے مقابلے میں لشکر جمع کیاہے۔ عمر سعد نے یہ سن کر سر جھکا لیا پھر تھوڑی دیر بعد کہا: خدا کی قسم !میں جانتا ہوں کہ اس گروہ سے نبرد آزمائی کرنے والا جہنم میں جائے گا لیکن میں عبید اللہ کی اطاعت کرنے پر مجبور ہوں ۔(٦)
میدان کربلا میں انس کافی سن رسیدہ تھے ، وہ اس قدر بوڑھے تھے کہ ان کے ابرو اور پلکیں ڈھلک آئی تھیں، عاشور کے دن امام کی خدمت میں آکر اجازت طلب کی تاکہ میدان میں جاکر دشمنوں سے جنگ کرسکیں ، امام نے اجازت دی ۔ انہوں نے اپنی کمر عمامے سے باندھی اور آنکھوں تک تک ڈھلکی پلکوں کو رومال سے اوپر کی طرف باندھا تاکہ دیکھنے میں رکاوٹ نہ بنیں ، بڑے جوش اور عشق صادق کے ساتھ آمادۂ جنگ ہوئے ۔ امام حسین ؑیہ حال دیکھ کر رونے لگے ، چہرے پر قطرات اشک نمایاں تھے ، آپ نے اسی عالم میں فرمایا : شکر اللہ سعیک یا شیخ " اے بوڑھے مجاہد خدا تمہیں بہترین اجر عطا کرے "۔(٧)
انہوں نے میدان کارزار میں آکر اس طرح رجز خوانی کی :
قد علمت مالکھا و الدودان
والخندفیون وقیس عیلان

بان قوی آفة لاقران
لدی الوغی و سادة الفرسان

مباشر والموت بطن آن
لسنا نری العجز عن المطعان

آل علی شیعة الرحمن
آل زیاد شیعة الشیطان
'' یقینا بنی اسد کے قبائل '' مالک و دودان '' جانتے ہیں، ساتھ ہی خندفیون اور قیس و عیلان جانتے ہیں کہ میری قوم اور قبیلے والے غضب کے جنگجو ، سواروں کے سردار اور نیزہ کے وار سے دشمنوں کو فی النار کرنے والے ہیں ، آل علی خداوند رحمن کے پیروکار ہیں جب کہ آل زیاد شیطان کے پیروکار ہیں ''۔(٨)
انہوں نے رجز پڑھتے ہوئے زبردست جنگ کی اور چودہ یا اٹھارہ دشمنوں کو واصل جہنم کیا ۔(٩)پھر دشمنوں کے مسلسل حملوں کی تاب نہ لاکر درجۂ شہادت پر فائز ہوئے ۔(١٠)
عرب کے مشہور و معروف شاعر کمیت بن زید اسدی نے انس اور حبیب بن مظاہر کے سوگ میں کچھ اشعار کہے ہیں ، یہاں صرف ایک شعر نقل کیاجارہاہے :

سوی عصبة فیھم حبیب معقر
قضی نحبة و الکاھلی مرمل
'' سوائے کچھ لوگوں کے جن میں سے ایک حبیب ہیں جو خون میں آغشتہ ہوئے اور ایک کاہل اسدی ہیں خاک و خوں میں غلطاں شہادت سے سرفراز ہوئے ''۔(١١)
زیارت ناحیہ اور رجبیہ میں امام زمانہ (عج) نے آپ کو اس طرح یاد فرمایاہے :
السلام علی انس بن الکاہل الاسدی ۔(١٢)

حوالجات
١۔ ابصار العین ص ٩٩؛ تنقیح المقال ج١ ص ١٥٤
٢۔ اعیان الشیعہ ج٣ ص ٤٩٩
٣۔ ابصار العین ص ٩٩
٤۔ اسد الغابہ ج١ ص ١٢٢؛ تاریخ دمشق ج١٤ ص ٢٢٤
٥۔ نقل از شہادت نامہ امام حسین ص ٥٠٨
٦۔ الاصابہ ج١ ص ٢٧٠؛ فرسان الہیجا ج١ ص ٣٧
٧۔مناقب ابن شہر آشوب ج٣ ص ٢١٩
٨۔ ذخیر ة الدارین ص٣٧٥
٩۔ امالی شیخ صدوق ص ١٣٨؛ ذخیرة الدارین
١٠۔ مناقب آل ابی طالب ج٤ ص ١١١
١١۔ ابصار العین ص١٠٠
١٢۔مناقب آل ابی طالب ج٤ ص ١١٢

تبصرہ ارسال

You are replying to: .